ہر قوم کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر کسی قوم کو ختم کرنا ہے تو اس کی زبان کو ختم کردو،قوم اپنے آپ ختم ہو جائے گی۔دشمنان اردو کئی دہائیوں سے اس شیریں اور بے بدل زبان کو ختم کرنے کی سازشیں کئے چلے جارہے ہیں اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ چند نا عاقبت اندیش لوگ،جن کی مادری زبان اردو ہے ،وہ بھی دانستہ اور نادانستہ طور پر انھی عناصر کاساتھ دے رہے ہیں اور اردو کی بیخ کنی کئے چلے جارہے ہیں۔ایسی صورت حال میں اردوکا کوئی رسالہ نکالنا جان جوکھم کا کام ہے۔لیکن فرہاد صفت عاشقان ادب نفع و نقصان کی پرواہ کئے بغیر اس کار عظیم میں لگے ہو ئے ہیں۔گزشتہ صدی میں اردو کے کئی رسائل نکلے اور بند ہو گئے ، مگر چند رسا ئل ابھی تک پوری آب و تاب کے ساتھ شایع ہو رہے ہیں۔ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں آسمان ادب پر کئی نئے رسالے طلوع ہوئے ہیں اور ان کا رنگ و آہنگ اور تیور دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ رسائل بہت دور تک جائیں گے۔
میں نے جب ہوش سنبھالا تو اس وقت ہمارے گھر میں اردو کے کئی رسائل آیا کرتے تھے۔میں ان رسائل کو نہایت ذوق و شوق کے ساتھ پڑھا کرتا تھا۔میرے والد مرحوم سید محمد صالح نے جب میرا رجحان اس طرف د یکھا تو انہوں نے میرے لئے بچوں کے کئی رسالے جاری کر وا دئے اور اس طرح رسالوں سے میری شناسائی اور دوستی بڑھتی چلی گئی۔اسکول کے زمانے میں میرا ایک دوست ہوا کرتا تھامحمد غیاث الدین۔۔۔۔۔وہ اکثر مجھ سے کہا کرتا تھا کہ تم ضرور ایک نہ ایک دن کسی رسالے کے مدیر بنو گے۔پتہ نہیں وہ آج کل کہاں ہےاگر وہ مجھے کہیں مل جائے تو میں اسے اپنا رسالہ دے کر کہوں ، دیکھو یار! تمھاری پیشن گوئی درست ثابت ہوئی اور میں ایک رسالے کا مدیر بن ہی گیا۔ لیکن مدیر بننے کا بھی ایک قصہ ہے اور یہ قصہ بہت دلچسپ ہے۔ ہوا یہ کہ جب پہلے پہل میرے گھر پر کمپیوٹر آیا تو اس وقت میرے فرزند ارجمند ثالث آفاق صالح کی عمر لگ بھگ دس برس کی تھی۔انہوں نے اس میں زبردست دلچسپی دکھائی اور بغیر کسی کے سکھائے بہت جلد اس میں مہارت حاصل کر لی۔ چونکہ ان کا رجحان صحافت کی جانب ہے لہذا چند برس قبل میں نے ان کے نام پر ”ثالث پبلیکیشنز“ نام کا ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت اب تک کئی افسانوی مجموعے،ناول،شعری مجموعے اور تنقیدے مجموعے منظر عام پر آ Melange چکے ہیں۔ پچھلے دو برسوں سے وہ ایک انگریزی ای۔میگزین
بھی نکال رہے ہیں اوراب تک اس کے کئی شمارے شایع ہو چکے ہیں۔اس رسالے میں مختلف اقسام کے کالم ہوا کرتے ہیں۔اور اب اردو سہ ماہی ”ثالث“ کا اجرا ہوا ہے۔اس رسالے کے مدیر ،ثالث آفاق صالح نے اپنی مدیرانہ ذمہ داریاں بخوبی نبھائی ہیں اور تخلیقات کے انتخاب سے لے کر رسالے کی کور ڈیزائننگ اور انٹرنیٹ پر اس کی نشر و اشاعت کا سارا کام بحسن و خوبی انجام دیا ہے اور قدم قدم پر میرا ساتھ دیا ہے۔لیکن مدیر بننے کے بعد ہی پتہ چلا کہ مدیر بننا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔مواد کی فراہمی سے لے کر رسالے کو قاری کے ہاتھوں تک پہنچانے میں اتنے مراحل طے کرنے پڑے کہ کوہ کنی کا لطف آ گیا لیکن زبان سے یہی نکلتا ہے کہ
اللہ کرے مرحلہ ء شوق ہو نہ طے
خدا کرے فرہاد کی طرح مجھے اپنے سر پر تیشہ نہ مارنا پڑے اور میں اسی لگن اور محنت کے ساتھ رسالہ نکالتا رہوں۔مجھے بس آپ جیسے با ذوق قارئین کا ساتھ چاہئے جو رسالے کو بہتر سے بہتر بنانے میں میری ہر طرح سے مدد فرمائیں۔
فی زمانہ کسی بھی رسالے یا کتاب کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا سب آسان اور محفوظ طریقہ انٹرنیٹ ہے اور اس کے لئے رسالے کاویب سائٹ Softel Revolution بنانا ضروری تھا۔چنا نچہ” ثالث“ کا ویب سائٹ آپ کے سامنے ہے۔یہ ویب سائٹ نام کی کمپنی نے تیار کیا ہے۔اس کمپنی سے رابطہ درج ذیل لنک سے کیا جا سکتا ہے۔